9000 years History of Pakistan
پاکستان تو 1947 میں بنا
لیکن اس علاقے میں لوگ تو نو ہزار سال سے رہ رہے ہیں ہزاروں سال سے یہ علاقہ سینٹر آف ایکسیلینس رہا ہے جو سب سے پرانی تہذیب یا سیولائزیشن پاکستان میں ملتی ہے وہ ہر گڑھ کی تہذیب یہ تہذیب سات ہزار قبل مسیح یعنی آج سے نو ہزار سال پہلے بلوچستان کے علاقے میں ٹھیک ہوں اور اس وقت کی شاعر سب سے ترقی یافتہ تہذیب تھی جو بات بالکل واضح نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ بہت ہی زبردست حق میں تھے اس دور میں بھی بہت اچھے ہیں جس میں بنا کرتے تھے اور اس دور کے برتنوں پر بھی اٹھ وقت بنے ملتے ہیں یعنی اس دور میں زندگی کا بہت اہم حصہ تھا پھر تقریبا پانچ ہزار سال پہلے انڈس ویلی سویلائزیشن یعنی ہوتی ہے اور اس کے کھنڈرات ہمیں سندھ میں مون جو دڑو اور پنجاب میں ہر موڑ پہ ملتے ہیں اس تہذیب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی ٹاؤن پلاننگ بہت اچھی تھی یہ ٹاؤن پلاننگ اتنی اچھی تھی کہ اسلام آباد بھی تقریبا ایسی ہی تبدیلی پر بنا ہے ایک طرف ہے کل کا سارا تھا یعنی بادشاہ کا محل عورت اسمبلی اور سامنے کا شہر بلاک سیکٹر میں بنا ہوتا تھا وادی سندھ کی تہذیب اپنے وقت کی سب سے ترقی یافتہ تہذیب تھی پھر آج سے تقریبا تین ہزار سال پہلے گندھارا کی تہذیب ہوتی ہے ان کی تہذیب پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں زیادہ قوی پاکستان میں گندھارا کے کھنڈرات طبعی شہزادہ اور ٹیکسز وغیرہ میں ملتے ہیں یہ تہذیب مشہور ہے یونیورسٹی بنانے کے لیے سادہ میں بہت بڑی یونیورسٹی تھی سوات میں تھی اور چارسدہ میں بھی تھی اور کہتے ہیں ٹیکسلا کا تلفظ ہی درست تشخیص سے ہے یہ تہذیب آصف پندرہ سو سال پہلے تک اس علاقے میں قائم تھی اور بس پھر اس کے بعد تہذیبوں کا دور ختم ہوا اور حملہ آوروں کا دور شروع ہوا ہمارے علاقے میں فوڈ بہت تھا گرم مسالے اور پھل وغیرہ اس لیے دوسرے علاقوں سے لوگ آنے لگے اور ہم پر حملہ آور ہونے لگے تو سو سال پہلے سکندر آیا پانچ سو سال پہلے چنگیز خان کھانا یا چھے سو سال پہلے تیمور آیا اور تین سو سال پہلے نادرشاہ آیا یہاں آتے تھے اور سارا کچھ لوٹ کر چلے جاتے تھے ہم آج کل ان بادشاہوں کو بڑے بڑے نام دیتے ہیں جیسے کہ الیگزینڈر دی گریٹ ارے یہ گریٹ نہیں تھے یہ تو صرف لٹیرے تھے باہر سے آتے تھے اور سب کچھ لوٹ کر چلتے ہیں ان بڑے حملہ آوروں کے علاوہ بھی افغانستان اور انڈونیشیا سے حملہ آور آتے تھے لیکن ان کا خاس تاریخ قاسم کا حملہ ہمارے علاقے میں مسلمان تاجر اور بزرگان دین تو تب ہی آنے لگے تھے جب عرب میں اسلامی حکومت قائم ہوئے پچاس سال بھی نہیں ہوئے تھے اس میں سب سے نمایاں نام عبداللہ شاہ غازی کا ہے جن کا مزار کلفٹن کراچی کے ساحل پر ہے 712 میں ایک واقعہ ایسا ہوا کہ جس نے ساؤتھ ایشیا کی تاریخ بدل کر رکھ دی مسلمان تاجر آیا جایا کرتے تھے وہاں کچھ تاجروں نے وفات پائی اور ان کی بیوی اور بچے واپس اپنے دیس بصرہ کو لوٹ رہے تھے وہ کشتی میں جا رہے تھے جہاں آج کل کراچی ہے وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا سا علاقہ تھائی بلا کے راجہ نے اس پر حملہ کر دیا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا ہوا کچھ یوں کہ اس کشتی کا ایک سوال باہر نکلا اور اس نے بصرہ کے مسلمان کو عورت حجاب بن یوسف کو اطلاعات ہیں کہ یہاں پر کیا ہوا ہے اور اپیل کی کہ ہمیں بچایاجائے حجاج بن یوسف کو پیغام ملا اور اس نے فیصلہ کیا کہ یہ جرم نہیں کیا جاسکتا اور اس نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو ایک لشکر طیبہ کی طرف روانہ کردیا محمد بن قاسم کے ساحل پر اترا یہ پہلی بات ہے جب کوئی مسلمان ہمارے علاقے پر حملہ کرنے آیا تھا محمد بن قاسم نے نہ صرف دیگر فتح کیا اور وہاں کے راجہ سے بدلہ بھی لیا بلکہ وہ تیزی سے آگے کے علاقے فتح کرتے چلا گیا اور ملتان تک پہنچ گیا پھر حجاج بن یوسف کے واپس بلالیا محمد بن قاسم کو واپس چلا گیا لیکن اب اس علاقے کی تاریخ بالکل بدل چکی تھی ہمارے علاقے میں ایک مسلمان فاتح دیکھ لیا تھا محمد بن قاسم کو واپس چلا گیا لیکن اس کے دو تین سو سال بعد مسلمان بادشاہ افغانستان کے راستے اس علاقے میں آتے رہے اور یوں ساؤتھ ایشیا پر تقریبا ہزار سالہ مسلمان حکومت کا آغاز ہوا پہلے حکومت کا کیپٹل آف ہوتا تھا قابل میس مردن یا بخارا میں بادشاہ بہاروں میں رہتے تھے اور ان کی گورنر یہاں پر حکومت کرتے تھے پھر خود نہیں کھایا اور پہلے لاہور اور بعد میں بلی کو کب ڈویژن بنایا بہت سے بادشاہ آتے جاتے رہے جز نویں غوری خلجی تغلق اور لودھی وغیرہ لیکن پھر ایک ایسا حملہ آور آیا جس کے خاندان نے کئی سو سال حج کیا اور یہ حملہ آور بابر اور پہلا مغل بادشاہ بابر ایک زبردست جنرل تھا اس کی فوج بھی چھوٹی تھی لیکن اس نے کابل سے دلی جاتا تھا ایک بہت بڑا علاقہ قبضے میں لے لیا اس نے دہلی کو کیپیٹل بنا دیا اور پھر انیس سو سینتالیس تک ہیلی کاپٹر رہا بابر کے بعد اس کا بیٹا ہمایوں بادشاہ بنا ویسے تو انہوں نے تین سو سال حکومت کی لیکن بیچ میں 18 سال ان کی حکومت نہیں رہی لہذا میں جب انگریزوں نے مغلوب کر آیا تھا سب مغل بہت کمزور ہو چکے تھے لیکن اس سے تین سو سال پہلے ایک شخص ایسا تھا جس میں مغلوں کو اس وقت آیا جب وہ اپنی پکچر تھے اور وہ تھا شیر شاہ سوری یہ بندہ جرم ہے پہلے یہ مغلوں کی فوج میں سپاہی تھا پھر کمانڈر بنا پھر مغلوں کی ہسٹری جی پسند نہ آئی جس کی وجہ سے اس نے بنگال اور بہار کے علاقے میں اپنی سلطنت بنا لیے وہاں سے اٹھ کر یہ بندہ لگاتا پھیلاتا آخر کار وہ وقت بھی آگیا جب وہ دی گریٹ مغل امپائیر کو چیلنج کرنے لگا ہمایوں کے ساتھ جنگ ہوئی ہمایوں ہار گیا اور بھاگ نکلا اور ایران چلا گیا اور یہاں پر شاہ سوری بادشاہ بن گیا شیعہ کے مزاج میں پہلے کے سارے بادشاہ سے ایک بنیادی فرق تھا اور وہ یہ تھا کہ حملہ آور نہیں تھا وہ اسی مٹی کا بیٹا تھا وہ آدمی ہی پیدا ہوا تھا یہی ملک اس کا گھر تھا اور ظاہر بات ہے کوئی اپنے گھر کو تو نہیں لگتا لیکن یہاں ایک اور بات آتی ہے اگر لوٹو گے نہیں تو حکومت کیسے چلاؤ گے پیسے کہاں سے لاؤ گے شیرشاہ وہ پہلا ملک تھا جس نے اکانومی کا ریپ کیا اس نے یہ سوچا کہ اگر کسی کے پاس 100 روپے ہی تو سارے کے سارے پیسے لوٹ لینے کی بجائے بہتر یہ ہے کہ اس کو موقع دیا جائے کہ وہ ہزار روپے کمائے اور پھر اس میں سے لے لو اور حکومت کو بھی پیسے آتے رہیں گے اس کام کے لیے شیر شاہ سوری نے وہ انقلابی پروجیکٹ بنایا تھا جسے ہم جی ٹی روڈ کہتے ہیں کہ ان سے لے کر کابل جانے والی یہ سڑک 2000 کلومیٹر سے بھی زیادہ لمبی ہے جہاں یہ سڑک وزری اس علاقے کی قانونی کو بہت زیادہ ترقی ملی شہداء کا نظام بنایا پولیس کا نظام بنایا پہلی بار سکیورٹی اور کمیونیکیشن ٹیولپ کی 1945 میں شیعہ وفات پا گیا لیکن اس کے دس سال بعد اس پر حکومت کرتے رہے لیکن ظاہر ہے اس کے بیٹے اس کی طرح عظیم لیڈر نہیں تھے اس طرح ایران میں بیٹھے مغل بادشاہ ہمایوں کو واپسی کا راستہ مل گیا سو پچپن میں ہمایوں نے ایران کے بادشاہ کی مدد سے سے حکومت چھین لی پھر اس مغل خاندان کی حکومت اگلے تین سو سال تک قائم رہی ہمایوں کے اگلے سال ہی وفات ہوگئی اور پھر آیا مغلوں کا سب سے بڑا بادشاہ اکبر کے دور میں سلطنت بہت بڑی اور بہت مضبوط ہوں گی اور اس دور میں عوام کے پاس پیسہ بھی بہت آ رہا تھا کیونکہ شیعہ کے بنائے ہوئے پر آج کا کام کر رہے تھے شیعہ کی پالیسی اس کا صحیح فائدہ ہوا کیونکہ اسے ایک بہت تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک حکومت کرنے کے لئے مل گیا جہاں ترقی ہوتی ہے وہاں آتا ہے اور پھر یہی ہوا لیکن یہ پیسہ مغل بادشاہوں کے دماغ کو چڑھ گیا مغلوں سے پہلے جو بادشاہ آتے رہے تھے وہ ایسی عیاشی بالکل نہیں کرتے تھے جیسی مغلوں کو سوچیں کنیزوں کے لشکر پر جا رہے ہیں جگہ جگہ محل تعمیر ہو رہے ہیں عالیشان مقبرے اور بات بن رہے ہیں سارے جہاں سے شیخ بجا رہے ہیں تاکہ بادشاہ کا کھانا مزیدار سے مزے دار ہوتا جائے شاعروں اور طوائفوں کو خوب انعامات حرام مل رہے ہیں اور بادشاہ سلامت کا دن شراب میں پڑے رہتے ہیں یہ تھی مغل امپائیر جب ایسی عیاشی کر رہی ہو تو پھر ظاہر بات ہے برائی بھی آتی ہے اور انہیں مقابلوں میں وہ بادشاہ بھی آیا جس نے اپنے باپ کو اللہ کا دیا بہت قید کر دیا اپنے بھائیوں بھائیوں اور بچوں کو قتل کر دیا جب ایسی عیاشیاں ہو تو بھائی بھائی کا نہیں رہتا ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے اور اگر آپ غور سے دیکھیں تو آج بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے عیاشی تو چلتی رہیں لیکن سارا وقت کسی کو خیال نہیں آیا کہ تعلیم اور فوج پر بھی خرچہ کرنا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ جب انگریز ہے تو مغلوں کے پاس وہی تو پی تھی جو ساڑھے تین سو سال پہلے بابر اپنے ساتھ لایا تھا مگر فوج کو نہ تو جنگ کے لئے پلاننگ آتی تھی نہ ہی ان کے پاس کوئی اچھے تیار تھے نتیجہ یہ ہوا کہ انگریز کی مثال کرتے ہوئے پورے ساؤتھ ایشیا پر قابض ہوگئے انگریزوں نے جب دہلی پر قبضہ کیا تو وہاں پر بہت ظلم کئے تھے قتل عام ہوئے بچوں بڑوں بزرگوں کسی کو نہیں چھوڑا لیکن جو کہ پاکستان کے پاس ہیں ان علاقوں کے مسلمانوں کی بچت ہو گی تھوڑی سی وہ اس لئے کیونکہ ان پر انگریزوں کی حکومت تھی ہی نہیں اس وقت یہاں پر سکھوں کی حکومت تھی اس لیے جب انگریزوں نے سکھوں کو یہاں سے ہرایا تو انہیں مسلمانوں کو قتل کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ اس وقت مسلمانوں کے پاس حکومت ہے انہیں شکست ہوئی اور انگریزوں نے لاہور سمیت اس سارے علاقے پر قبضہ کر لیا جس سے آج ہم پاکستان کہتے ہیں انگریزوں کے دور میں ایک بار پھر اس علاقے کو زبردست ترقی ملی ٹرین آئی ٹیلی فون آیا تجھ کو بھلا دیا گیا بڑے بڑے کالج اور یونیورسٹیاں بن گئی کراچی جیسا پوسٹیں بنا ترقی تو بہت ہوئی لیکن انگریزوں سے غلطی ہوگئی بادشاہ کیا دیں اس قوم کو پارلیمانی جمہوری سیاست سے کھانے کی کوشش کی کی انگریزوں کا معنیٰ یہ تھا کہ سعودی شہر کے لوگوں میں یوں پیدا نہ ہونے دو ورنہ ان پر رول کرنا مشکل ہوگا ساتھ ہی ان کو یہ بھی سوچیں کہ ان لوگوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ ان پر انگریز قابض نہیں بلکہ ان کے اپنے ہی لوگ قابض ہیں اس لیے انہوں نے سیاسی کلچر شروع کیا اسمبلی بنائی انڈین نیشنل کانگریس نام کی ایک جماعت معنی جو اس علاقے کی پہلی سیاسی جماعت تھی جب سیاست ہے سیاست دانوں نے ووٹ حاصل کرنے کے لئے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا تاریخ میں پہلی دفعہ ساؤتھ ایشیا کے مسلمانوں کو یہ احساس ہوا کہ بھائی ہم تضاد میں بہت دور ہیں ہم تو مارے جائیں گے اور پھر 1906 میں مسلم لیگ بھی وہی اور شاید مسلمانوں کی قسمت اچھی تھی کہ انہیں بہت جلد اچھے لیڈر مل گئے مسلمانوں کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے تھے کیونکہ ان پر ظلم کرنا آسان تھا اس وقت ان کا کوئی والی وارث نہیں تھا پھر حساب یہ تھا کہ انگریزی تو نے مسلمانوں سے انڈیا کی حکومت تھی اور انہیں مسلمانوں سے کوئی پیار نہیں تھا دوسری طرف ہندؤوں پر مسلمانوں نے تقریبا ایک ہزار سال حکومت کی تھی تو ظاہر ہے ان دونوں بھی حساب برابر کرنا تھا مسلمانوں کو سمجھ آ رہی تھی کہ ان کے بہت برے دن آنے والے ہیں اور اس وقت ان کو کسی اچھے لیڈر کی تلاش تھی تو پھر کیا ہوا اچھا نہیں بلکہ بہت اچھا لیڈر میاں محمد اقبال صاحب سیالکوٹ اقبال جن کو آج ہم علامہ اقبال کہتے ہیں کہ رہی تھے بچپن میں ہی پنجابی اردو فارسی اور عربی سیکھ لیں پھر انگریزی سیکھیں اور انگلینڈ چلے گئے وہاں سے بیرسٹر بنے پھر وہیں پر انگریزوں کو پڑھاتے بھی رہے کہ وہ اسے جرمنی چلیں گے چار مہینے لگا کر جرمن بھی سیکھ لیں اور ایسی نہیں سیکھی کہ وہ ہلکی پھلکی بول چل کر سکیں نہیں جی انہوں نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کر ڈالی ان کا حصہ آج بھی ایک ملین مارچ 25 کراچی سی لاہور میں پانی بھی لگے ساتھ ہی مسلم لیگ کو جوائن کیا اور اپنی نظموں اور مضامین کے ساتھ مسلمانوں کو گائے بھی کرنے لگے علامہ اقبال کی کوئی بھی نئی چیز سیکھنے کی صلاحیت بے مثال تھی اور ان کی کمیونیکیشنز کل کے تحت کیا ہی کہنا ان کی لیڈرشپ اوریجنل کمال کا تھا اقبال نے صرف مسلم لیگ ن کی اعلیٰ کے اس دور میں دونوں پارٹیوں کو بیک وقت ٹائم کیا جا سکتا تھا جیسے کہ قائداعظم کے بہت سخت کانگریس کے ممبران ہیں لیکن وہ شروع میں یہ سمجھ آگئی تھی اور مسلمان اکٹھے نہیں چل سکتے انیس سو تیس تک سب مسلمان ماں کی دکھ سے ہو چکے تھے تب علامہ نے مسلم لیگ کے ایک جلسے کی صدارت کرتے ہوئے ایک تاریخی خطاب کیا انہوں نے کہا کہ پنجاب سندھ کشمیر اور بلوچستان کو ملا کر اس طرح کی آزادی دینا ہوگی کہ مسلمان آسانی سے رہ سکے انہوں نے یہ بھی کہا کہ آزاد کے استاد میں لکھی جا چکی ہے علامہ سید اکیلے ہی پارسل ملا جاتے لیکن ان میں بری عادت تھی وہ یہ کہ وہ بہت اچھے تھے نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں گلے کا کینسر ہو گیا علامہ کو یہ احساس ہوا کہ ابھی ٹائم لگے گا اس ریاست کو بننے کے لیے لیکن ان کے پاس اتنا ٹائم نہیں تھا لیکن وہ یہ چاہتے تھے کہ ان کے جانے کے بعد کوئی ایسا لیڈر مل جائے جو ان کے والی سارے معاملات سنبھال سکے لیکن بدقسمتی سے اس وقت مسلم لیگ میں کوئی ایسا لیڈر نہیں تھا علامہ کو سمجھائیں کسی ایک بندہ ہے جو ان کے بعد ان کے مشن کو جاری رکھ سکتا ہے لیکن وہ بندہ عوام سے مایوس ہو کر لندن جا رہا ہے محمد علی جناح اپنے دور کے سب سے مہنگے اور کھیلوں میں سے ایک تھے وہ بہت زبردست چنتے چنتے تھے اور سیاسی ورکر تھے بہت دیتا ہوں ہندو مسلم اتحاد کی باتیں کرتے رہے شروع میں تو انہوں نے کانگریس اور مسلم لیگ دونوں پارٹیوں کی ممبرشپ لکھی ہوئی تھی بلکہ مسلم لیگ کے صدر بھی رہے لیکن آہستہ آہستہ بہت تنگ آتے تھے ہندو لیڈر شپ سے بھی اور مسلمانوں سے بھی ان دلچسپیوں نے یہ سنا تھا کہ وہ بات کر کے مکر جاتے تھے لیکن مسلمانوں سے یہ مسئلہ تھا کہ بہت سے مسلم لیگ مر چکی تھی جناب کے بارے میں لوگ عجیب و غریب باتیں کرتے تھے اور کچھ مذہبی لیڈر تو انہیں گئے تھے کے مسلمان لیڈر تو انہیں شراب والے بھی کہتے تھے کیونکہ جناب صاحب بہت اچھی تحریر کرتے تھے جب جناح صاحب نے 1938 میں اپنے چودہ پوائنٹ بھی دے دیے لیکن پھر بھی سارے مسلمان اکٹھے نہیں ہوں گے تو جیسے جناح صاحب نے اپنے دل میں سوچا کہ جو خود ہی ٹھیک نہیں ہونا چاہتی اسے کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں جناب صاحب پہلی گول میز کانفرنس کے لیے لندن گئے اور پھر واپسی نہیں آئے وہیں پر مقابلے شروع کردیں جیسے کہ اپنی قوم سے بہت مایوس ہو چکے ہوں نعت رسول مقبول میں اس کانفرنس میں مسلم لیگ کی نمائندگی علامہ اقبال نے کی اور حسب توقع انگریز جو کے رویے سے بالکل مایوس ہوگئے اور ان ہی دنوں میں علامہ کو گلے کا کینسر بھی ہو گیا یہ وہ وقت تھا جب علامہ نے جناح صاحب کو خط لکھا اور اس بات پر اصرار کیا کہ وہ واپس آئیں اور واپس آکر مسلمانوں کی قیادت سنبھالی ہیں کیونکہ علامہ جانتے تھے کہ جناح صاحب میں کتنی صلاحیت ہے کہ جناح صاحب لندن سے واپس آ گئے اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی انہوں نے علامہ اقبال سے کچھ ملاقاتیں بھی کیں اور خط و کتابت بھی باقاعدگی سے ہوئی اور سچ تو یہ ہے کہ قائد اعظم کی شخصیت پر علامہ اقبال کی باتوں کا بہت گہرا اثر پڑا علامہ اقبال کے ساتھ دوستی کے بعد قائداعظم کی شخصیت میں جو بنیادی فرق آیا وہ یہ تھا کہ اب وہ عوامی لیڈر بنتے قانون تو وہ پہلے ہی بہت اچھے تھے لیکن ابھی تک عوام نے ان کو وہ پاپولیرٹی حاصل نہیں ہوئی تھی جن کی نہیں ضرورت تھی علامہ اقبال سے ملنے کے بعد یہ منظر بالکل بدل گیا قائد میں اسلامی عوامی رنگ آنے لگا پہلے ان کی ساری سیاست پیپر ہوتی تھی اب جلسوں میں ہونے لگی تھی پی سوڈ کی جگہ شیروانی آتی گئی وہ اردو سیکھنے لگے اور بولنے لگے ٹوپی پہننے لگے نماز پڑھنے لگے اور ان سب باتوں پر جادوئی اثر ہوا ویسے تو نہیں آئی سیون کے الیکشن میں مسلم لیگ نون صبح تک جاری رہی لیکن انتخابات کے بعد جہاں جیتے ہوئے سیاستدان بہت زیادہ مایوس کر رہے تھے وہیں قائد کی پاپولیرٹی آسمانوں کو چھونے لگی فلائٹ میں علامہ اقبال وفات پا گئے لیکن جاتے جاتے وہ اپنا کام پورا کر رہے تھے آپ محمد علی جناح کے قائد اعظم بن چکے تھے انیس سو چالیس تک قائد کی پاپولیرٹی یہاں تک پہنچ گئی کہ 23 مارچ کو مسلم لیگ کا وہ جلسہ ہوا جس کی یاد میں مینار پاکستان تعمیر کیا گیا جس جلسے میں قائداعظم نے آزاد پاکستان کا مطالبہ کیا تھا پاکستان بننے کو مزید سات برس لگے درمیان میں ہندو مسلم فسادات ہوتے رہے مرضی تو میں مرے ہوئے صبح رکھے اور مندروں میں مرے ہوئے کتے رکھے جاتے تھے گلیوں بازاروں میںکس چیز کے انگریزوں کے لیے حالات سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا اوپر سے دوسری جنگ عظیم کے بعد ویسے ہی انگریزوں کی بینڈ بجی تھی اس لیے انہوں نے جلدی سے انڈیا سے بھاگنے کی اس وقت انگریزوں نے ایک گھٹیا ترین لائن کھینچی جو ملک بنائے بوریا بستر لپیٹ اور چلتے بنے جس دن ہمارے علاقے سے ان کا آغاز ختم ہوا وہ 14اگستت تھا آج پھر ایسا وقت ہے کہ ایک دور ختم ہوا کرتا ہے اور دوسرا دور آگیا ہے یہ انٹرنیٹ سوشل میڈیا اور گلوبل ولیج کا دور ہے کمپیوٹر کے مارکیٹ کا چیلنج ہے اور دوسری طرف دہشتگردی کا چیلنج ہے اور آپ چینی کا دور ہے کیونکہ سی پیک بن رہا ہے جیسے کسی دور میں جی ٹی روڈ نے قسمت بدلی تھی ویسے ہی آج سی پیک قسمت بدل سکتا ہے جیسے ایک سو سال پہلے ہمیں بہت اچھی لیڈر شپ کی ضرورت تھی اسی طرح آج بھی ضرورت ہے پچھلی دفعہ تو ہمیں علامہ اور قائد مل گئے تھے لیکن اب سوال یہ ہے کہ اس دفعہ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں